تحریر: سید لیاقت علی کاظمی
اسلام کے نقطہ ٔنظر سے ... کسی بھی طرح کی چیز کو اپنا مرکز بنالینا، ایک مثالی نمونہ اور آئیڈیل کے طور پر اپنانا اور اپنا قبلۂ معنوی قرار دے لینا عبادت ہے،ہر وہ شخص جو اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا مرکز،راہ زندگی آئیڈیل،اور اپنا معنوی قبلہ قرار دیدے تو اس نے اسکی عبادت اورپوجا کی ہے:﴿اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ﴾ ([1])کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے ؟
جو شخص کسی دوسرے شخص کے حکم کی تعمیل کرتا ہےکہ جس کی خدا نے اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے ، اور اس کے سامنے وہ سر تسلیم خم کیےحاضر ہے تو گویا اس نے اس کی عبادت کی ہے۔﴿اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ([2])ان لوگوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو خدا کو چھوڑ کر اپنا رب بنالیا ہے ....﴿وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾([3])آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں ۔در حقیقت ، ہم میں سے کچھ انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں پر خدائی ، فرمانروئی اور حکمرانی جتلانے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔([4]) وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ؛ہم میں سے کچھ انسان دوسرے کچھ انسانوںکو اپنا«رب»قرار نہ دیں - جب کہ ہم سب کا رب خدا ہے – ہم اپنے آپ کو آقاؤں اور نوکروں میں تقسیم نہ کریں، آئیے ہم ان غلط معاشرتی تعلقات کو الگ کردیں اورانہیں اپنے معاشرے سے اکھاڑ پھینکیں جو ایسی تفریق کا باعث بنتے ہیں۔([5])
اسلام کے مطابق، انسان کو اپنی ساری توجہ کا مرکز صرف اور صرف قدرت و طاقت، روپیہ پیسہ، یا نسائی پرستی تک ہی محدود نہیں رکھنی چاہئے ، کہ جنمیں سے ایک نطشے کا معبود ہے ، دوسرا مارکس کا معبود ہے اور تیسرا فرائڈ سگمنڈ کا معبود ہے، انسان کو اپنا معبود اپنے سے برتر دنیا میں تلاش کرنا چاہیئے نہ یہ کہ مادّی دنیا اور اپنے ہی جیسے افراد میں تلاش کرے اور جسم و جسمانیات اورشکم اور زیر شکم کی دنیا سے اوپر ہی نہ اٹھ پائے۔([6])
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: «كُلُّ ما مَيَّزْتُموهُ بِأوْهامِكُمْ فى أدَقِّ مَعانيهِ فَهُوَ مَصْنُوعٌ لَكُمْ مَرْدوُدٌ إلَيْكُمْ ... وَلَعَلَّ النَّمْلَ الصِّغارَ يَزْعَمُ أنَّ للهِ زُبانِيَّتَيْنِ»([7])یعنی ، آپ اپنے وہم و خیال میں کسی چیز کا تصور کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے ادھر ادھر کی اور طرح طرح کی باتیں بنانے لگتے ہیں؛اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہی توحید اور علم و معارف ہیں؛ آپ نہیں جانتے کہ یہ نہ ہی آپ کے لائق ہیں اور نہ ہی خدا کے شایان شان، تب امام نے کہا: تم کیسے جانتے ہو؛ہوسکتا ہے کہ یہ چھوٹی چیونٹیاں ، جو اپنی ان دو سینگوں نما چیزوںکو بہت استعمال کرتی ہیں ... خیال کریں کہ خدا کے بھی دو سینگ ہیں،چونکہ اس کی نظر میں دو سینگ بہت قیمتی ہیں ، اس لیے اسکے خیال میں خدا کی بھی دو سینگ ہونا ضروری ہے۔یہ قیاس ہے۔([8])
قرآن مجید میں شیطان کا واقعہ بیان ہوا ہےجہاں قلب کے کفر اور عقل کے سراپا تسلیم ہونے کی ایک مثال پیش کی گئی ہے، شیطان خدا کو جانتا تھا ، وہ قیامت کے دن پر بھی یقین رکھتا تھا ، وہ انبیاءاور انکے اوصیاءکو پوری طرح سےپہچانتا تھا اور ان کے رتبے سے واقف تھا، اسکے باوجود خدا نے اسے کافر کہا اور اس کے بارے میں کہا:﴿وَكانَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾([9])«اور وہ کافروں میں سے تھا»۔([10])
یعنی شیطان کے پاس اللہ جیسا معبود ہونے کے باوجود اس انجام اللہ سے دوری اور اپنے معبود سے نافرمانی کی صورت میں نکلا، وہ کونسی وجہ اور علت تھی جس کے سبب ایسا ہوا کہ اپنا معبود پالینے کے باجود شیطان گمرہی کا شکار ہوگیا اس پر توجہ رکھنا نہایت لازم و ضروری ہے تاکہ معبود کی تلاش میں ہم ان معیارات کو نہ اپنائیں جن پر شیطان چلا اور برے انجام کا مسافر بن گیا۔معبود کی تلاش اگر ہے تو آپ اسے اقوال و افعال معصومین علیہم السلام میں بہ آسانی تلاش سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ ذوات مقدسہ ہیں جنھیں خود اللہ نے اپنی جانب رہنمائی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
([1]) فرقان (۲۵): ۴۳۔
([2]) توبہ (۹): ۳۱۔
([3]) آل عمران(۳): ۶۴۔
([4]) جہانبينی توحيدی، مجموعہ آثار شہید مطہری، ج2 ،ص۱۰۵۔
([5]) جہانبينی توحيدی، مجموعہ آثار شہید مطہری، ج2 ،ص۱۱۱۔
([6]) یاداشتہائے شہيد مطہری، ج ۲،ص ۱۴۲۔
([7]) الوافی، ج۱،ص۱۴۲۔
([8]) آشنائی با قرآن (6 ـ 9 )،مجموعہ آثار شہید مطہری، ج27 ،ص190۔
([9]) بقرہ (۲): ۳۴۔
([10]) عدل الٰہی، مجموعہ آثار شہید مطہری، ج1 ،ص291۔